Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

تین منٹ قیامت

تین منٹ قیامت 

تین-منٹ-قیامت


چونکہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا اس لئے میرا بچپن مسجد و مجالس میں گزرا۔ میں بسیج کے ادارے کا ایک فعال
رکن تھا۔ جب میں سول کا طالبعلم تھا۔ ایران عراق جنگ کے ایام چل رہے تھے۔ ان دنوں ہمارا ہر وقت مسجد میں گزرتا تھا۔ ہم
نے وفاع مقدس کے آخری سالوں میں بہت دعائیں اور اگر یہ کیا کہ کسی طرح جہاد میں شامل ہونا نصیب ہو۔ آخر کاراللہ نے مجھے
توفیق دی کہ مجاہدین اسلام کے ساتھ جنگ کے محاذ کی روحانی فضا کو محسوس کر سکوں۔ میں اس وقت اصفہان کے ایک چھوٹے شہر
میں رہائش پذیر تھا۔ محاذ کی روحانی فتم جنگ کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور میں شہادت کی حسرت دل میں لئے واپس لوٹا لیکن اس کے بعد
میں نے اپنی تمام تمت و محنت کو روحانی در جات کے حصول کیلئے قرار دیا۔ میں جانتا تھا کہ شہداء جهاد اصغر سے قبل جهاد اکبر میں
کامیاب ہوتے ہیں۔ لہذا جوانی میں میری پوری کوشش رہی کہ مجھ سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو مسجد جاتے ہوئے رستے میں نظریں
جھکائے رکھتا نگاہ کسی نامحرم پر  نہ پڑے۔
میں عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا تھا۔ ایک شب خلوت میں  اللہ  اسے راز و نیاز کے دوران بہت رویا اور گڑگڑایا کہ
پروردگار ! تو مجھے اس دنیا کے گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھے اور جلد اپنے پاس بلا لے۔ میں نہیں چاہتا کہ گناہ میرے وجود کو
آلودہ کر یں، مجھے ڈر ہے کہیں معمولات زندگی سے غیر ضروری وابستگی میری عاقبت کی خرابی کا سبب نہ بن جائے۔ میں نے حضرت
عزرائیل سے در خواست کی کہ وہ میری روح قبض کرنے جلد آجائیں۔
چند دن بعد میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر کچھ افراد کو مشہد مقدس کی زیارت پر لے جانے کا پروگرام بنایا۔ کافی
تردد کے بعد سفر کے انتظامات مکمل ہوئے اور جمعرات کے دن بعد از ظهر روانگی کا وقت طے پایا۔ بدھ کا دن گزرا اور میں تھکا ہارا
گھر لوٹا تو حسب معمول عزرائیل کو یاد کیا اور اپنی موت کی دعامانگی۔ اپنی کمسنی اور ذہنی نا پختگی کی وجہ سے میں اس دعا کو اپنے حق میں

 بہتر سمجھتارہا یہ جانے بغیر کہ اہل بیت علیہم السلام نے خدا سے ایسا کبھی نہیں کیا، بلکہ وہ دنیا کو آخرت کی بلندیوں تک پانے کیلئے ایک

 ہوا۔ واپسی میں ٹریفک سگنل پر کسی ٹیکسی ڈرائیور نے اچانک بائیں طرف سے میری موٹرسائیکل کو زوردار ٹکر ماری میں ٹیکسی کے بونٹ اور چھت سے ٹکراتا ہو از مین پر جا گرا۔ میرے جسم کے بائیں حصہ میں درد کی لہر اکھی۔ میکسی ڈرائیور تیزی سے میری جانب پڑھا۔ وہ کانپ رہا تھا، شاید وہ سمجھا کہ میں مر چکا ہوں۔ مجھے بھی یہی محسوس ہوا کہ اب میرا آخری وقت قریب ہے اور جناب عزرائیل یہاں سے گزرے ہیں۔ میں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو ٹھیک بارہ بج رہے تھے، جسم کے بائیں حصہ میں شدید درد ہو رہا تھا۔ یہ گز شتہ رات والے خواب جیسی صورتحال تھی۔ میں نے سوچا کہ میں بچ جاؤں گا کیونکہ خواب میں حضرت عزرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ ابھی میرے جانے کا وقت نہیں آیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین میرے منتظر ہوں گے، میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا: آپ ٹھیک تو ہیں ؟“ میں سنی ان سنی کرتا ہوا موٹرسائیکل کی طرفت پکار وہ آواز میں دیتا رہا: "کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ٹھیک ہو؟“اسے خون تھا میں کہیں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے گر نہ جاؤں اس لئے وہ راستے میں میرے پیچھے پیچھے رہا۔ خدا کا شکر کاروان مشهد کیلئے روانہ ہو گیا۔

حادث سے ہونے والا در دو ہفتے بعد ختم ہوا۔ اب میں یہ بات میں سمجھ چکا تھا کہ جب تک میرے پاس وقت اور فرصت ہے، مجھے رضائے پروردگارکے لیے نئے امور زندگی انجام دینا ہوں گے اور اپنی موت کی دعا نہیں مانگنی چاہیے۔ جب میرا وقت آئے گا تو حضرت عزرائیل مجھے خود بھی لینے آجائیں گے لیکن میں ہمیشہ دعا کرتا تھا کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو۔ ان دنوں میری بھر پور کوشش تھی کہ میں اپنے دوستوں کی طرح سپاه پاسداران انقلاب میں شامل ہو جاؤں۔ میرا عقیدہ تھا کہ سپاہ کی سبز وردی جیسا لباس امام زمان عجل الله فرج کے انصار زیب تن کریں گے۔ چند سال بعد میری کوششیں بارآور ثابت ہو میں اور میں مختلف تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد شمسی تاریخ کے مطال۳۷۰ کی ابتدا میں سپاه پاسداران انقلاب میں شامل ہو گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنے اعر واحباب کے نزدیک ایک محنتی ذمہ دار اور خوش مزاج انسان ہوں اور کسی حد تک لوگوں کو بیوقون بنانے کا فن بھی جانتا ہوں۔ میرے دوستوں کے مطابت میری محبت میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ اسی لئے تربیتی کیمپس ہوں یا جنگی مشقیں میں جس خیمہ میں ہوتا وہاں سے ہونے کی آواز میں نہیں۔ کچھ عرصہ بعد میں نے شادی کر لی اور معمولات زندگی میں مگن ہو گیا۔ دن دفتر میں اور رات کا وقت گھر والوں کیساتھ گزر متا، چھ راتوں میں مسجد اور امن بھی چلا جاتا۔ یوں مجھے سپاہ پاسداران سے منسلک ہوئے اٹھارہ برس بیت گئے۔ ایک دن اعلان ہو کہ جنگی آپریشن کیلئے آمادہ ہو جائیں۔

Post a Comment

0 Comments